حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے برجستہ عالم دین مولانا غلام علی گلزارؔ نے اپنے ایک پیغام میں اتحاد امت کو دینی فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتحاد امت نہ صرف سیاسی و معاشرتی سطح پر بلکہ مذہبی و اقتصادی سطح پر بھی وحدت ضروری ہے۔ قرآن اورِ سنتِ رسول (ص) کی رو سے نہ صرف ان کی گنجائش ہے بلکہ ترغیب بھی واضح ہے۔ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان شیعہ اور سنی نام پر چودہ سو برس سے چلتے اپنے اختلاف کی خلیج کا ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے!۔ اتحاد امت کے خلاف اس قسم کی تشویش یا اعتراض اس صورت میں مشکل ہو سکتا ہے جب تکفیر یا ارتداد سے اسلام کی طرف پلٹنے کا مسئلہ درپیش ہو۔
انہوں نے کہا کہ قرآنی نصوص اور احادیث رسول (ص) کی رو سے دائرہ اسلام میں ہونے کے بنیادی عقائد یہ ہیں؛ توحید، رسالت و ختم نبوت، قرآن و قبلہ اور آخرت پر مکمل ایمان و اعتقاد۔ جو شخص اس اصولی عقیدے کا اقرار کرتا ہو، قول و فعل سے اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو، ان اصول کو نہ جھٹلاتا ہو، اسے کافر نہیں کہا جا سکتا ہے، اگر کوئی مسلم حلقہ، یا مفتی و مجتھد، اساسی عقیدہ کے ترجحان مسلک با مشرب کو کفر پر مشتمل سمجھے اس کے بناء مسلمانی کے اصل و عقیدہ میں نقص ہے۔
انہوں نے یہ بات زور دیتے ہوئے کہا کہ سنی و شیعہ نام سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف دوسری صدی ہجری کے وسط سے نمایاں طور پر موجود ہے۔ وقتا فوقتا علماء سوء اور جابر حکام کے استحصال سے یہ خلیج بڑھتی رہی، جن کو مسلم دشمن استعمار اپنے نفوذ و مفاد کے لئے وسیع کرنے کی پالیسی بناتا رہا ہے، جابر ملوکیت نے اسلامی اتحاد اور مسلم امت کو منتشر کرنے میں بنیادی حصہ ادا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے کے دینی اور انسانی حقوق ہیں۔ دہشت گردانہ واقعات میں کسی مسلمان کو حتی کہ کسی غیر مسلم کو قتل کردینا جائز نہیں ہے کیونکہ قتل ناحق سے قرآن واضح طور پر منع کرتا ہے۔ معروف مسالک اہل سنت کے بانی ائمہ و محدثین اور تواتر کے ساتھ ائمہ و مجتہدین اہل تشیع اسلام کے باہمی حقوق کو واضح کرچکے ہیں۔ اس بناء پر فساد و نفرت پھیلانے والے واعظوں اور مفتیوں کی اجتماعی طور پر تنقید و اصلاح کی طرف تمام با شعور اور اھل نظر مسلمانوں کو متوجہ ہونا چاہئے۔
انکا کہنا تھا کہ فروعی اختلافِ نظر اور فقہی مسائل باعث تفرقہ نہیں بن سکتے، اصول اسلام میں باہمی مطالعہ و تبادلئہ نظر موجب استفادۂ عمومی ہے۔ مسلم دانشوروں کو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے دین و امت کے بنیادی تقاضوں کو اجاگر کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔